ملالہ یوسفزئی پاکستانی طالبہ

Photo: #Malala <3


“Let us pick up our books and pens. They are our most powerful weapons”.“One child, one teacher, one pen and one book can change the world”.
" آئیے اپنی کتابیں اور قلم اٹھائیں۔ یہ ہمارے سب سے طاقتور ہتھیار ہیں"۔ "ایک بچہ، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب دنیا بدل سکتے ہیں"۔

ملالہ یوسفزئی پاکستانی طالبہ ہے، جسے 2014ء کا نوبل انعامبرائے امن دیا گیا۔ ملالہ 1997ء کو پیدا ہوئی۔ مینگورہ، ضلع سوات،خیبر پختونخوا، پاکستان سے ہے۔ وہ وادی سوات میں تعلیم اور حقوق نسواں کے لئے آواز اٹھانے کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ اس علاقے میںتحریک طالبان پاکستان 2009ء میں بچیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔[2] 2014

Photo: Malala Yousafzai and Kailash Satyarthi win Nobel peace prize 2014

Malala Yousafzai becomes youngest ever Nobel Prize winner!

Thank you everyone for your support :-) Love&Peace <3

#Malala

ء میں ملالہ کو نوبل انعام برائے امن دیا گيا۔2009ء میں پاک فوج نے سوات میں زبردستکاروائی کر کے طالبان کی اجارہ داری ختم کر دی اور طالبان کا بدمعاشِ اعظم ملا فضللہ امریکہ کے زیرقبضہ افغانستان فرار ہو گیا۔ لڑکیوں کے مدرسہ دوبارہ کھل گئے۔اس عرصے (2009ء) میں ملالہ نے بی بی سی کے لئے ایک مدونہ تحریر کیا جس میں اس نے بچیوں کی تعلیم اور حقوق نسواں کے لئے آواز بلند کی۔ ملالہ اسی وجہ سے مختلف اعزازت کے لئے نامزد ہوئی اور پاکستان کا پہلا "قومی اعزاز برائے امن" جیتا۔ نیویارک ٹائمز نے اس پر دستاویزی فلم بنائی۔ اس عرصہ میں ملالہ نے کاروائی کرنے والی پاک فوج کے جوانوں کو بھی 

تنقید کا نشانہ بنایا۔
9 اکتوبر 2012ء کو "پاکستانی طالبان" نے کارروائی کرتے ہوئے ملالہ کو

 سکول جاتے ہوئے گولی مار کر جان سے مارنے کی کوشش کی گولی اس کے سر میں لگی اور اسے نازک حالت میں ہسپتال داخل کرنا پڑا۔ اس حملہ میں دو اور لڑکیاں بھی شدید زخمی ہوئیں۔ حملے کے بعد کئی روز تک ملالہ کو ہوش نہیں آیا تاہم بعد میں حالت مستحکم ہوتے ہی انکو صدر پاکستان آصف علی زرداری کی درخواست پرمتحدہ عرب امارات کی حکومت نے خصوصی ہوائی امبولنس بھیجی 

اور اسکو برطانیہ کے ملکہ الزبتھ اسپتال، برمنگھم میں منتقل کردیا گیا-


قوم کی اس بہادر بیٹی کے یہ الفاظ اس کے چٹان جیسے پختہ عزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں؛
'میرے پاس دو راستے تھے: یا تو میں خاموش رہوں اور ماری جاؤں یا پھر آواز اٹھاؤں اور قتل کر دی جاؤں، میں نے دوسرا راستہ چُنا۔'
ملالہ نے فقط بچوں خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز ہی نہیں اٹھائی بلکہ اس کے مخالفوں کے خلاف علم جنگ بلند کیا۔ آخر ہم کب تک اپنے محسنوں کی قربانیوں کو جھٹلاتے رہیں گے؟

No comments:

Post a Comment